انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے بانی و سربراہ ڈاکٹر محمد منظور عالم کی کتاب حیات کے یہ اوراق ہم جیسوں کےلیے مشعل راہ بھی ہیں اور درس عبرت بھی۔ یہ سرگذشت یہ بھی بتاتی ہے کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنابندی اور یہ بھی کہ یہ عشق آسان نہیں،آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔

کتاب:ڈاکٹرمحمد منظور عالم-ان کہی کہانی
مرتب: اے یو آصف
ضخامت:424 صفحات
قیمت:750 روپے
ناشر:جینوین پبلیکیشنس پرائیویٹ لمیٹیڈ، نئی دہلی

آپ 1950-60 کی دہائی کے شمالی بہارمیں نیپال سےنکلتی ندیوں کے پانی سےسیراب ان گاؤوں کا تصور کریں جو پوری طرح کاشتکاری پر منحصر ہیں،اکادکالوگ چھوٹے موٹے کاروبار، ملازمت یا محنت مزدوری کے لیےشہروں کوجاتے ہیں لیکن ابھی تک اس رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔اعلیٰ تعلیم کارجحان بھی مخصوص خاندانوں تک محدود ہے۔اب ذرانقشےکو قریب لاکر نیپال کی سرحد(جمونی سنگم)سےصرف 13 میل نیچے آئیں،یہ دریائےکملاسےکوئی 27میل پچھم اور دریائےباگمتی سےتقریباً اتنےہی پورب ایک ایسا گاؤں ہے جہاں ابھی تک کسی نے میٹرک نہیں کیا۔ گاؤں میںکوئی پرائمری اسکول بھی نہیں ہے۔بچوں کو اسکول جانے کے لیے ایک سے دومیل تک چل کرپڑوس کے گاؤوں کوجاناپڑتا ہے۔ اسی گاؤں کےایک کاشتکار خاندان کےتین بیٹوں میںسب سے چھوٹے نےگاؤں میں پہلی بار میٹرک کیا، پھر اس نے بیچلربھی کرلیااور اب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے شانتی نکیتن جانا چاہتا ہے لیکن پڑوس کے گاؤں کے ایک ذی علم وجہاندیدہ بزرگ کے مشورے پروہ وشوبھارتی کے بجائے علی گڑھ چلاگیاجہاں اس کی شخصیت کی نشوونماایک ایسے سوشل سائنٹسٹ کے طور پر ہوئی جس نےآگے چل کرملک وملت کو اپنی نوعیت کاایک منفرد تھینک ٹینک دینا اور عالم اسلام کے مختلف ملکوں سےہندوستان کے دانشورانہ روابط کی ایک مضبوط کڑی بننا تھا۔
آپ ایک ایسے طالب علم کوتصور میں لائیں جس کی دلچسپی ریاضی میں تھی لیکن نہ تواس کے اسکول میں ریاضی کی تعلیم کامعقول نظم تھا نہ گھرکی معاشی حالت اتنی اچھی تھی کہ پرائیویٹ ٹیوشن لیتا،اس لیےاس نے سماجی علوم کارخ کیا۔پری یونیورسٹی میں سیاسیات رکھی لیکن سیاست اور سیاسیات پرکالج کے ایک ٹیچرکےمنفی تبصرےسے متاثرہوکراس نے اسے چھوڑ دیا۔ اب اس نے معاشیات پڑھی، اسی میں بی اے اور ایم اے کیا۔شانتی نکیتن جانے کی اس کی خواہش اب بھی زندہ تھی لیکن اساتذہ کے دباؤ نے علی گڑھ چھوڑنے نہیں دیا۔چلاجاتا تو شاید اس کا چند سال بچ جاتا،ملک پر ایمرجنسی کی افتادکے باعث اسے مسلم یونیورسٹی میںجوپریشانیاں پیش آئیں،نہیں آتیں اور شایداس کی زندگی کارخ کسی اور سمت ہوتا لیکن کون جانتاتھا کہ ان ہی بہ ظاہرناموافق اتفاقات نےاس پربیرونی دنیاکےوہ دروازے کھولنے ہیں جو مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اورمعاصر دنیائےاسلام کے مختلف مراکز اور تھینک ٹینکس تک جاتے ہیں۔
آپ ایک ایسے ماہراقتصادیات کوتصورمیںلائیں جو دنیا کے ایک سب سے دولت مند ملک کی وزارتوں میں اہم خدمات انجام دیتا ہے،حکومت کا مشیر اقتصادیات رہ چکا ہے، اس کے اعلیٰ حکام اور وزیروںمیں بےحد مقبول ہے،ان کی ایسی قربتیں اسے حاصل ہے کہ برصغیر سے تعلق رکھنے والےاحباب وشناسااس پررشک کرتے ہیںلیکن کوئی آٹھ سال بعد عین اس وقت جب اس کی عملی زندگی چوٹی پرتھی، اس نے ہندوستان واپس آکرایک ایسا تجربہ کرنے کا فیصلہ کرلیاجوکوئی معمولی آدمی نہیں کرسکتاتھا۔ملک و ملت کی خدمت کے جذبہ سے بالکل غیرکاروباری بنیاد پرسیاسی، سماجی اور اقتصادی امور کی علمی تحقیق، تجزیے اور مطالعات کاادارہ قائم کیااورپھرخودکو رجحان سازی کے مشاغل اورہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی و سماجی مفادات کی دانشوارانہ جدوجہدکے لیے وقف کردیا۔
آپ ایک ایسے دانشور کو تصور میں لائیں جس نے ایک بڑی کامیاب اوربہت مصروف زندگی جی ہےاور اب وہ اپنی عمر طبعی کے اس حصے میں ہے جب لوگ آرام کرتے ہیں،خیرخواہوں اور معالجوں کی جانب سے آرام کا مشورہ دیاجاتا ہے لیکن وہ 80 کی عمرمیںصحت کے سنگین مسائل اوراعصاب شکن عوارض سے دوچار ہونے کے باوجودآرام نہیں کرتا۔ اسےہرہفتے دو بار ڈایلیسس کی اذیت سےگذرنا پڑرہا ہے لیکن وہ ہرڈائلیسس کےاگلے دن دفتر آجاتا ہے،انتظامیہ اور عملہ کی میٹنگیں لیتا ہے، پروجیکٹس پرکام کرنے والوں کی رہنمائی کرتا ہے اور ادارے کے ایک ایک کام کی باریکیوں پر نظر رکھتاہے۔ایسانہیں ہے کہ وہ گھر بیٹھ جائے تو کام رک جائے۔ادارے کو اہل کارکنان اورتجربہ کارمنتظمین کی خدمات حاصل ہیں،اسکالرس کی ایک اچھی خاصی ٹیم کا تعاون بھی ہے،قابل اعتمادمعاونین ،سعادت مندفرزند اور اہل جانشین بھی ہیں۔کسی ادارےکومعمول پر رکھنے کے لیے جو کچھ درکار ہے، وہ سارے لوازمات موجود و فعال ہیںلیکن وہ ہے کہ آرام سے نہیں بیٹھتا،ملک و ملت کی فکر اسے بے چین رکھتی ہےلیکن اس کے چہرے کا اطمینان ظاہر کرتا ہے کہ مایوسی اسے چھوکر نہیں گذری۔
یہ کوئی اور نہیں،انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے بانی و سربراہ ڈاکٹر محمد منظور عالم ہیں جن کی کتاب حیات کے یہ اوراق ہم جیسوں کےلیے مشعل راہ بھی ہیں اور درس عبرت بھی ۔ ہم عموماً بہت جلد ہمت ہار دیتے ہیں،آسانیاںہمیں بہت زیادہ خوش اور پرعزم کردیتی ہیں اور مشکلات اتنی ہی جلد مایوس ومضمحل ۔ہم سوچتے بھی ہیں اور منصوبے بھی بناتے ہیں لیکن ان کو عمل میں اتارنے کے لیے جس قوت ارادی ، جیسی محنت اورجیسے عمل پیہم کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی کمی ہمارے قدموں کی زنجیر بن جاتی ہےلیکن آپ دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیں، مختلف النوع معاشروں اور قوموں کی زندگیوں میں جھانک آئیں ،پورب پچھم سب چھان لیں، کسی منظور عالم کی زندگی ان خوبیوں سے خالی نہیں ہوتی۔ کوئی جلد باز،جلدی خوش اور جلدی مایوس ہوجانے والایا محض خواب دیکھنے اور منصوبے بنانے والا ، مضبوط قوت ارادی سے خالی،صبرواستقامت سےدور اور محنت سے جی چرانے والا کبھی کچھ ایسا نہیں کرسکا جو کسی قوم یامعاشرےپر اثر انداز ہوتا۔
اس وقت ڈاکٹر محمد منظورعالم کی کتاب زندگی”ان کہی کہانی” ہمارے سامنے ہے جو معروف صحافی اے یو آصف نے ترتیب دی ہے۔ یہ کتاب آپ کو ان خوابوں سے بھی روبرو کراتی ہے جس نے ان کی زندگی کی سمت و رفتار پر غیرمعمولی اثرات مرتب کیے بلکہ اس کے رخ کا تعین کیا، ان لوگوں سے بھی ملاقات کراتی ہےجو اس کہانی میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں ، ان اتفاقات کوبھی سامنے لاتی ہےجو بتاتے ہیں کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی اور ان مشکلات و مراحل سے بھی پردے اٹھاتی ہےجو بتاتی ہے کہ یہ عشق آسان نہیں ہے،آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ لیکن سواچار سو صفحات پر پھیلی ہوئی یہ کتاب صحیح معنوں میں ابھی” ان کہی کہانی ” ہے۔قدم قدم پر تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔آپ اس میں یہ تو مذکور پاتے ہیں کہ پروفیسرنجات اللہ صدیقی اورپروفیسر فضل الرحمٰن فریدی نے موصوف کی فکر اور شخصیت کی تشکیل میں اہم کرداراداکیا لیکن کہانی اس کی جزئیات و تفصیلات میں نہیں جاتی ، اسی طرح یہ ڈاکٹراحمدتوتونجی،امام کعبہ قاضی شیخ سعید الجندل، شیخ سعید بن سعد،عبدالحمید بن سلیمان ،ڈاکٹر طہ جابر العلوانی ، ڈاکٹر ہشا م الطالب،جمال برزنجی،ڈاکٹر اسماعیل راجی الفاروقی ، ڈاکٹرحسن ترابی اور ڈاکٹرعبداللہ عمر نصیف جیسے عرب دانشوران و مفکرین سے آپ کی ملاقات کراتی ہےاورملیشیاکے انورابراہیم سے بھی لیکن اس گہرائی تک نہیں لے جاتی جہاں تک ایک اوسط ذہن پہنچناچاہتا ہے۔
ڈاکٹر محمدمنظور عالم کی سرگذشت کے یہ اوراق جہاں یہ بتاتے ہیں کہ ان کی زندگی میں سادگی ، اعتدال اور توازن کو کتنی اہمیت حاصل ہے وہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ اپنی شخصیت کے تعلق سے کتنے محتاط ہیں۔کتاب میں ازاول تاآخر ٹھوس واقعات سے کام لیا گیاہے، تبصرے بہت کم ہیں، اس قبیل کے جو مواد آئے ہیں وہ اہم شخصیات ، معاصرین اور رفقائے کار کےتاثرات و اعترافات تک محدود ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ڈاکٹر صاحب موصوف ایک عہد کی تاریخ ہیں۔ ” ڈاکٹر منظور عالم: ان کہی کہانی” کے مرتب اور طابع و ناشرنےان کےمختصر پروفائل،ضروری تصاویر اورسواچار سو میں سے ڈھائی سوسے زائدصفحات پر پھیلےہوئے متعلقہ دستاویزات کومحفوظ کرکے تاریخ کے طالب علموں پر ایک گرانقدر احسان کیا ہے لیکن کاش !یہ ایک ایسی خود نوشت سوانح ہوتی جو ان کے تجربات و مشاہدات کے ساتھ واقعات و شخصیات پر ان کی رائے کو بھی سامنے لاتی۔کتاب کیا ہے،ہم جیسوں کے لیے ایک جہان دیدہ کی سیرلیکن یہ ہماری تشنگی دور نہیں کرتی ، بڑھادیتی ہے۔کہانی ابھی ان کہی کی ان کہی ہے۔

رق