راجستھان کے جالور سے تعلق رکھنے والے، احمدآباد کے باشندہ لیاقت مکرانی اور حرمت بی بی کی ۲۳سال کی خوبصورت اور تعلیم یافتہ بیٹی عائشہ خان نے گزشتہ جمعہ (۲۶فروری) کو سابرمتی ندی میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی۔وہ اپنے شوہر اور اس کے اہل خانہ کے سلوک سے پریشان تھی۔ اس نے ایسا کرنے سے پہلے اپنے شوہر عاف خاں سے فون پرکوئی ۷۰ منٹ تک بات کی تھی اور اس گفتگو کو ریکارڈ کیا تھا، پھر اپنی خودکشی پرویڈیو بناکر اپنا بیان محفوظ کیا اور موت کو گلے لگا لیا۔ سابرمتی کی موجوں میں اس کی چھلانگ سے پیداہونےوالے چھپاکے اور اس کی اس اندوہناک موت پر لوگوں کی چیخیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں لیکن شاید اس سچ کو کسی نے نہیں سناجو اس خودکشی کے پیچھے موجود ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہاں اس کی زحمت شاید ہی کوئی کرے۔کون سنتا ہے نقار خانے میں طوطی کی آواز؟
عائشہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی،اسے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا، وہ ابھی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن والدین اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے،ابھی وہ بیس سال کی بھی نہیں تھی کہ اس کی شادی کردی گئی اورشادی کے بعد اس کو تعلیم چھوڑنا پڑی ۔اس نے میں اگست میں اپنے شوہر اور اس کے خاندان پرجہیز کے لیے ہراساں کرنے کا مقدمہ کیا تھا۔اب اس نے مرنے سے پہلے جو ویڈیو شوٹ کیا ہے، اس میں کہہ رہی ہے’’اگر وہ مجھ سے آزادی چاہتا ہے تو اسے آزادی ملنی چاہیے۔ میری زندگی اب یہیں تک ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اللہ سے ملوں گی۔ میں اس سے پوچھوں گی کہ میں کہاں غلط تھی؟ مجھے اچھے والدین ملے، اچھے دوست ملے، ہو سکتا ہے کہ میرے مقدر میں کوئی خرابی ہے۔ میں خوش ہوں۔ میں اطمینان سے الوداع کہہ رہی ہوں۔ میں اللہ سے دعا کروں گی کہ مجھے دوبارہ کبھی بھی انسانوں کا چہرہ نہ دیکھنا پڑے‘۔یہ عائشہ کے آخری الفاظ ہیں جس میں موجود درد کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ کتنی مایوس اور کتنے غصے میں تھی۔ اسے اپنے خاندان اورسماج سے ہی نہیں اپنی تقدیر اور اپنے خالق سے بھی شکایت ہے کہ اس نے اسے کیوں پیدا کیا اور وہ انسانوں کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی۔عائشہ کےیہ الفاظ ایک عائشہ کی ہی نہیں آج کےعام نوجوانوں کی نفسیات کا اشتہار اور ان کی ذہنی حالت کا آئینہ ہیں۔ آج اس ملک میں کم و بیش ہر نوجوان کو اپنے آپ سے، اپنے گرودو پیش، خاندان، سماج اور تقدیر سے یہی شکایت ہے اور اگر وہ لڑکی ہے تو اس کی نفسیاتی کیفیت کی شدت کیا ہوتی ہے ، وہ کوئی بھی حساس انسان سمجھ سکتا ہے۔ عائشہ نے سابرمتی ندی میں کودنے سے پہلے یہ بھی کہا ’میں دعا کرتی ہوں کہ یہ خوبصورت دریا مجھے اپنے گلے لگا لے‘۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کو زندگی سے زیادہ خوبصورت موت کب لگنے لگتی ہے۔
عائشہ نے ۲۵فروری کو اپنے شوہر عارف خان سے ۷۰منٹ کی گفتگو ریکارڈ کی تھی اور اس گفتگو کے دوران اس کے شوہر نے اس سے کہاتھا: ’میں تمہیں لینے نہیں آؤں گا، تمہیں مر ہی جانا چاہیے اور اس کی ویڈیو بنا کر بھیجنا تبھی مجھے یقین آئےگا کہ تم مر چکی ہو‘۔ یہ کوئی عام میاں بیوی کی نہیں،ایک عاشق جوڑے کا مکالمہ ہے، عائشہ کو شکایت ہے کہ اس کا پیار یک طرفہ ہے ، اس کا باپ اسے یاد دلاتا ہے کہ اس کا نام کتنا خوبصورت ہے، ماں عائشہ کی عظمت و تقدس کا واسطہ دیتا ہے، بیٹی سےزندگی کی بھیک مانگتا مگر اس خوبصورت لڑکی کو شکایت ہے کہ وہ اپنے نام جیسی خوبصورت تقدیر لے کے پیدا نہیں ہوئی۔
عائشہ کی خودکشی کا کلائمکس دیکھ کر مشہور فرانسیسی ادیب موپاساں کی اس کہانی کے مناظرمیری آنکھوں میں پھر گئے جس میں اس نے آرٹسٹوں کے معاشقے ، معاشقے کی شادیاں اور رومانس کی نفسیات کا تجزیہ کیاہے، اس نے بتایا ہےکہ زندگی رومان نہیں، بڑی تلخ حقیقت ہے۔ رومان اور معاشقے کی عمر کوئی دوڈھائی سال ہوتی ہے۔پھر توقعات ٹوٹنے لگتےہیں اور ایسے جوڑے اکثر اس ذہنی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ موپاساں کی کہانی کا ہیرو جب جان چھڑا کر کہیں چلا جاتا ہے تو اس کی محبوبہ (جو اب بیوی ہے) اس کو ڈھونڈتے ہوئے ایک دن اس کے ٹھکانے پر پہنچ جاتی ہے ۔ مکان کی پہلی منزل پر وہ کرایہ کے اس گھر میں اپنے عاشق سے کہتی ہے اگر تم نے نہیں مانا تو میں ابھی یہیں سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلوں گی اور اس کا شوہر اس کی اس دھمکی کے دباؤ میں آنے یا اس کے جذبات کو سمجھنے کی کو شش کر نے کے بجائے خاص ادا سے اپنی کرسی سے اٹھتا ہے،کمرے کی کھڑکی کھولتا ہے اور ہاتھوں کے اشارے سے کہتا ہے تو دیر کس بات کی ہے۔ خاتون ایک لمحے کو سوچتی ہے، ذرا ٹھٹھک کر اس کی طرف دیکھتی ہے اور پھر تیر کی رفتار سے پلک جھپکتے میں چھلانگ لگا دیتی ہے۔چونکہ اس نے زیادہ اونچائی سے چھلانگ نہیں لگائی تھی،اس لیے وہ صرف اپنےپیرگنوادیتی ہے، اس کی جان بچ جاتی ہے اور اب یہ جوڑا ساتھ ساتھ جی رہاہے، وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہیں مگر موپاساں کی کہانی کامرد اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس کی محبوبہ نے عشق میں ایسا کیاکہ یہ اس کی خود غرضی تھی یا وہ اپنی زخم خوردہ انا کی تسکین کے لیے جان سے کھیل گئی؟ کاش !عائشہ زندہ ہوتی اور عارف کے پاس بھی موپاساں کی کہانی کے کردار کی طرح اس کو اپنانے کا وقت ہوتا۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خود کشی بزدلی بھی ہے اور ایک بھیانک ترین انتقام بھی جو کوئی شخص اپنے چاہنے والوں سے لیتا ہے۔
اس موت کا ایک دوسرا پہلو بلکہ ان سنا سچ اور بھی ہے اور وہ ہےاس ملک میں بیٹیوں کی سماجی حالت۔ بیٹیاں ہمارے سماج میں پرایا دھن ہوتی ہیں اور وہ زندگی بھر منگل سوتر، سہاگ اور سندور کی نفسیات میں مبتلا رہتی ہیں۔کسی قیمت پر اس کو گنوانا نہیں چاہتیں اوراس کو گنواکر جینا ان کے لیے موت سے بھی بدتر ہے۔ شوہر سے علاحدگی یا طلاق کا تصور نہیں کرسکتیں۔ لعنت تو یہ ہے کہ اس ملک کا مسلم معاشرہ بھی اسی نفسیات میں مبتلا ہے اور مسلم عورتیں بھی اس کا عذاب جھیلنے کو مجبور ہیں۔ عائشہ یا تو اپنے شوہر عارف سے بے پناہ محبت کرتی تھی ، وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے اس کے میکے سے لینے آئےاور وہ اسے معاف کردے لیکن عارف نےایسانہیں کیا،اس کے بجائے اس کی انا کو ٹھیس پہنچائی۔ وہ اس سے اس کی بےوفائی کا انتقام لینا چاہتی تھی یا پھروہ طلاق کے تصور سے خوفزدہ تھی۔ ہم نے اگر عائشہ کی موت کی چیخیں سنی ہیں اور سچ مچ انسانیت سے ہمیں کوئی پیار ہے تو آج ہی منگل سوتر، سہاگ ، سیندور اور کنیادان کی اس نفسیات کے خلاف جہاد چھیڑ نا چاہیے جس کے عذاب میں مبتلا عورتیں یا تو زندہ رہ کر ہرلمحہ مرتی ہیں، ہردن موت کی اذیت سے گزرتی ہیں یا پھر خودکشی کرلیتی یں۔ کاش! ہم عائشہ کی کہانی کے اس ان سنے سچ کو سنتے ۔(جاری)