*****

ملک کے سب سے بڑے دینی مدارس و مسلکی مراکزمیں سے ایک میں باریابی کا اتفاق ہوا۔ مدرسہ اپنے نام کے ساتھ جامعہ لکھتا ہے، مقامی لوگ اس کو یونیورسٹی پکارتے ہیں۔ اس کے بانیوں نے ۷۰ کے عشرے میں اس تاریخی مدرسےکی توسیع کے وقت بار بار اس کو عربی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس پر لوگوں کے جوش و خروش کا عالم یہ تھا کہ صرف ڈیڑھ سال میں اس کی وسیع وعریض عالیشان عمارت بن کر تیار ہوگئی تھی۔ میں نے اس کی مجلس شوریٰ کے ایک رکن سے جو خیر سے ایک گورنمنٹ کالج کے پرنسپل رہ چکے تھے اور میری بات سمجھ سکتے تھے، سوال کیا کہ بانیان جامعہ کے خوابوں کی عربی یونیورسٹی آج تک مدرسہ کا مدرسہ ہی کیوں ہے، آپ کے پاس معقول اراضی، اور انفراسٹکچر وغیرہ موجود ہےاور اب جبکہ پرائیویٹ یونیورسٹی آسانی سے منظور کرائی جاسکتی ہےتو آپ جامعہ کو سچ مچ کی جامعہ کیوں نہیں بنالیتے۔ ایک سے زائد انٹرکالج تو آپ کے پاس پہلے ہی موجود ہیں۔ ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولے’’ ابھی ناظم صاحب سے ہماری ملاقات ہوگی۔ ان کے سامنے اپنی بات رکھیے‘‘۔ ملاقات کے دوران ناظم صاحب سے بات کی توان کایہ جواب سن کر میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیاکہ ’’ہم جامعہ کو سرکار کو دینا نہیں چاہتے‘‘۔ یہ اس ناظم کاجواب تھاجس کے دستخط سےاترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈسےاس مدرسہ میں اساتذہ کی تقرری ہوتی ہے اوراساتذہ حکومت سے ہرماہ تنخواہ وصول کرتے ہیں ۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ناظم صاحب ایک سینٹرل یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ اورپیشہ سے انجینئر ہیں۔ میں اب ان سے کیا کہہ سکتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ پھربھی حوصلہ جٹاکر عرض کیاکہ یونیورسٹی بنالینے سے تو آپ اس سے کہیں زیادہ آزاد وخودمختار ہوںگے جتنے آج ہیں۔ میں نے آپ کو سرکار یا کسی کو اپنا ادارہ دینے کا مشورہ کب دیا ہے۔ ان کی شوریٰ کے رکن موصوف و مرحوم نے بھی بات کو کچھ سنبھالنے کی کوشش کی۔ اب ناظم صاحب نے اپنے دفتر کے ایک کلرک کو چائے کی میز پر بلوایا جو کچھ زیادہ جہاندیدہ سا لگ رہاتھا، ہم نے اب اور تفصیل سے بتایا کہ کس طرح اس ادارے کو سچ مچ ایک عربی یونیورسٹی بنایا جاسکتا ہے۔ ملک کی ایک مشہور غیر سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا نام لے کر بتایا کہ وہ اس کارروائی میں آپ کی مدد اور رہنمائی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ تأثر دیا کہ وہ سمجھ گئے ہیں اور ان کو یہ تجویز اچھی لگی ہے۔ ناظم صاحب موصوف نے یہ بھی کہا کہ وہ جلد ہی حضرت سربراہ اعلیٰ کی خدمت میں تجویز رکھیںگے اور شوری کی آئندہ میٹنگ میں اس پر غور کیا جائےگا۔ اب دو سال ہونے کوآئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس مسئلے میں سنجیدہ بھی تھے یا نہیں اور انہوں نے کوئی پیش قدمی بھی کی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دیوبند اور ندوہ کے ذمہ داروں سےبھی بات کرتا تو کم وبیش یہی جواب ملتا اور اسی طرح کی خاموشی پیش آتی۔ حالانکہ یہ وہ ادارے ہیں جو جب چاہیں یونیورسٹی اور ڈیمڈ ٹوبی یونیورسٹی بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان پر دولت لٹانے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن ان کے ذمہ داروں میں خوف ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں تقدس کی وہ چادر سرک نہ جائے جس کی سفیدی پر اپنے پرائے فدا ہیں۔