ہندوستان میں قوانین بنیادی طور پر دو نوعیت کے ہیں، فوجداری(تعزیری) اور غیر فوجداری (منصفی) یعنی کرمنل لا اور سول جسٹس. پھر ان دونوں کے ضابطہ جاتی قوانین الگ ہیں جو عدالتوں اور تفتیشی ایجنسیوں کی کارروائیوں کے طور طریقے کو طے کرتے ہیں. ان دونوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہےکہ پہلے قسم کے مقدمات میں قانون اور عدالت ازخود کارروائی کرتی ہے. مدعی اور گواہوں کے بیان کی تحقیق و تحکیم اور اس کی بنیاد پر فریق استغاثہ کی مدد کرنا اور مجرم کو سزا دینا دلانا عدالت کی ذمہ داری ہے، ریاست اس میں مدعی کے ساتھ فریق استغاثہ ہوتی ہے. سول جسٹس کے مقدمات میں ایسا نہیں ہوتا. اس میں مدعی (فریق اول) کو دعوے اور تنقیحات خود پیش کرنا ہوتا ہے، عدالت آپ کے دعووں اور ثبوتوں کی جانچ جانچ کرکے صرف یہ طے کرتی ہے کہ آپ نے جو حقوق یا راحت طلب کی ہے، وہ جائز ہے یا نہیں. آپ نے اگر مقدمے کی نوعیت کو نظر میں رکھے بغیر غلط دروازے پر غلط دستک دی تو نتیجہ غلط نکلےگا، عدالت یا سرکاری ایجنسیاں آپ کی کوئی مدد نہیں کرینگی.
دہلی میں اوقاف کی 123 اراضی کا مسئلہ جو برسہا برس سے زیربحث ہے، ایسا ہی ایک مسئلہ ہے جو سول جسٹس کے مقدمہ کو فوجداری کی طرح لینے اور غلط دروازے پر غلط دستک دینے سے پیدا ہوا اور چل رہا ہے.
اس مسئلے میں یہ تین نکات یاد رکھنے کے ہیں. (1) یہ ساری کی ساری 123 جائیدادیں اہل اسلام کی ہیں، ان کے قبضے اور استعمال میں ہیں. بالکل غیر متنازعہ ہیں. ایسا اس وقت بھی تھا جب برنی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ ان کا کنٹرول دہلی وقف بورڈ کو دے دیا جائے کیونکہ ان کے خردبرد ہونے کا خطرہ تھا یا ان میں سے بعض کے بعض حصوں پر مقبوضات قائم کرلی گئی تھیں. ان ہی میں جامع مسجد دہلی اور اس طرح کی کئی بڑی مساجد بھی شامل ہیں.
(2)ان پر تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب وقف بورڈ نے سرکار کے ساتھ لیز کیا یعنی اس کی ملکیت ایک معینہ مدت کے لئے بورڈ کو منتقل کی گئی. گویا کہ وقف بورڈ نے باضابطہ تحریری طور پر تسلیم کرلیا کہ یہ جائیدادیں کسی محکمہ مجاز کی ملکیت ہیں. یہ ایک غیر قانونی کارروائی تھی کیونکہ یہ جائیدادیں وقف عام ہیں اور صدیوں سے اہل اسلام کے قبضہ و تصرف میں ہیں اور اس پر کسی کا کوئی مالکانہ حق نہیں تھا، محکمہ مجاز کے کاغذات میں ایسی جائیداد کی ملکیت کے خانے میں اس لیے سرکار/ریاست درج ہوتا ہے کیونکہ یہ کسی فرد/افراد کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی اور یہ محصولات اراضی سے مستثنیٰ ہوتی ہے. یہ جائیداد مجازو متعلقہ کمیونٹی کی ہوتی ہے جس کی تفصیلات کھتیان کے ساتویں خانے میں درج ہوتی ہیں لیکن وہ بھی اس کے استعمال کی مجاز ہوتی ہیں اس میں تصرف کی مجاز نہیں ہوتی، حکومت کی نگرانی میں ہوتی ہے گویا اس کے حقوق ملکیت و استعمال ریاست اور متعلقہ کمیونٹی کے درمیان مشترک ہوتے ہیں. کمیونٹی کے پاس اس کے استعمال کا حق ہے اور ریاست کے پاس اس کی حفاظت کی ذمہ داری کہ اس کا استعمال تبدیل نہ کیا جائے. غرضیکہ سارا معاملہ کمیونٹی اور ریاست کے درمیان ہے جس کو وقف بورڈ اور سرکار/ محکمہ کے بیچ بنایا گیا. جبکہ بورڈ کسی وقف کا مالک نہیں ہوتا، صرف اس کا نگران اور انتظام کار ہوتا ہے. وہ وقف جائیدادوں کی بہ شرط ضرورت و حسب منشا واقف لیز کرتا ہے، وقف جائیداد کی لیز نہیں لیتا، وہ اوقاف کا قانونی نگراں و منتظم ہے. یہی لیز وہ غلط دستک تھی جس نے اس مسئلہ میں تیسرے فریق کے لیے دروازہ کھولا اور فرقہ پرست ہندو گروپ اس میں داخل ہوا کہ جو زمین سرکار وقف بورڈ کو دے رہی ہے وہ ہمیں کیوں نہیں دے سکتی جبکہ ہم زیادہ قیمت پر لیز حاصل کرنا چاہتے ہیں. اب عدالت اس لیز کو برقرار رکھتی ہے تو ایک خطرناک پنڈارہ باکس کھلتا ہے لیکن وقف بورڈ اور مسلم لیڈران اسی اندھی لکیر کو پیٹ رہے ہیں.
برنی کمیٹی اور لیز کا کھیل جامع مسجد جیسی مساجد سے اہل محلہ اور امام کا کنٹرول ختم کرکے ان پر وقف بورڈ/سرکار کو قابض و دخیل کرنا تھاجس سے یہ تنازعہ پیدا ہوا.
(3)اسی الجھن کو دور کرنے کیلئے نیا وقف ایکٹ لایا گیا جس میں وقف جائیداد کی تعریف تبدیل کی گئی اور اس کی رو سے وقف بورڈ کو اختیار دیا گیا کہ وقف کی حفاظت اور رکھ رکھاؤ کے لیے ایسی جائیدادوں کا ازخود اندراج کرکے جس کا کوئی باضابطہ شرعی متولی نہیں یا جہاں متولی نااہل ہوچکا ہے ، اسے اپنے کنٹرول میں لے یا اس حفاظت کی غرض سے بورڈ کو وہ اختیارات دیے گئے جو پہلے اسے نہیں حاصل تھے. اس پر کسی کا قبضہ ہے تو خالی خود کراسکتا ہے اور حکومت و انتظامیہ اس کارروائی میں اس کی مدد کرنے کی پابند ہے. اعتراض کی صورت میں اس پر ضابطہ فوجداری وغیرہ کے عام قوانین اور عام عدالت کے بجائے مقدمہ کی سماعت وقف ٹربیونل میں ہوگی اور دعویدار کو حق ملکیت کا ثبوت پیش کرنا ہوگا. جو لوگ ہائیکورٹ میں 123 جائیدادوں کی ملکیت کا مسئلہ لے گئے یا سرکار نے جو لیز کیا انہوں نے ایک غلط دروازے پر غلط دستک دے کر مسئلہ پیدا کرنے کا ارتکاب کیا اور اب بھی اسی غلطی کو دوہرارہے ہیں. لیز بھی غیر قانونی ہے اور ان پر بشمول وقف بورڈ کسی کی ملکیت کا دعویٰ بھی ناقابل سماعت اور کالعدم ہے. بورڈ ان جائیدادوں کا نگران محض ہے، ملکیت ریاست اور کمیونٹی کے درمیان مشترک ہے. کھتیان کے ساتویں خانے میں جن کا نام درج ہے ان کو حکومت یا کوئی اور کسی بھی حال میں اور کسی قیمت پر بےدخل نہیں کرسکتا. ویسے تو اس ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون صدیوں سے رائج ہے.