ہندوستان کے دینی مدارس دنیا کا ایک ایسا سب سے بڑا غیرسرکاری نظام(این جی او ؍نیٹ ورک) ہیں جوعام لوگوں کے تعاون سے، عام لوگوں کے ذریعے اور عام لوگوں کے لیےچلایا جاتا ہے. اس کے منتظمین کوئی امراورؤسا اور خواص نہیں ہوتے۔ ان کی اکثریت بہت کم پڑھے لکھے غریب علمائے دین کی ہے. یہ سماج کےنادار بچوں کی مفت تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی کفالت بھی کرتا ہے۔ اگر یہ مدارس نہ ہوں تو ملت کے لاکھوں بچے ناخواندہ رہ جائیں اور افلاس وتنگ دستی کے جہنم میں جینے کے تباہ کن چکر ( vicious sycle ) سے وہ اور ان کی نسلیں کبھی نہ نکل سکیں۔ یہ دنیا کا واحدادارہ ہے جو مفلس و نادار بچوں کو سماج کی سب سے پچھلی صف سے اٹھا کر پہلی صف میں بلکہ قیادت و امامت کے مقام پر پہنچا دیتا ہے مگر آج اس ملک کےبہت کم لوگوں کے دلوں میں اس کی قدر وقیمت کا احساس ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ان مدارس کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذ پر سنگین خطرات درپیش ہیں جن سے ان کی حفاظت نہ کی گئی تو ملک وملت کو دین اور دنیا دونوں کے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑےگا۔

حق تعلیم ایکٹ اورنئی قومی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں ملک کے ان مدارس کے سامنےاب کوئی چارہ ہے تو یہ ہے کہ یہ اپنی درسگاہوں میں

(۱) دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے مروجہ مسلمہ معیار اور تسلیم شدہ نصاب کی درس و تدریس (UEE) کا نظم کریں

(۲) جو مدارس منظورشدہ نہیں ہیں، ان کو حق تعلیم ایکٹ کی صراحت کے بموجب معیار و شرایط کے ساتھ ریاست کے مجاز محکمہ سے تعلیمی ادارے کے طور پر منظور کرائیں اور

(۳) پانچویں، آٹھویں، دسویں اور بارہویں کے امتحانات کرائیں اور اسناد جاری کریں۔ جولوگ اوپن اسکولنگ یا کسی اور طریقہ سے مدارس کے بچوں کو دسویں پاس کرانے کی بات کررہے ہیں وہ بھی خطا پر ہیں، حق تعلیم ایکٹ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ دس سال کے نصاب کی سال بہ سال درجہ بہ درجہ تکمیل کرائے بغیر ایسا کریں۔ آپ اس کام میں سرکار سے امداد لیں یا نہ لیں ، آپ کو اب 6 سے 14 سال کے بچوں کی مروجہ مسلمہ بنیادی تعلیم (Universal Elementry Education) کا انتظام کرنا ہی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مدرسوں کو بند کردیں اور سرکار کو ان بچوں کی تعلیم کا بندو بست کرنے دیں۔ ایک تیسری صورت بھی ہے کہ ان مدارس کو غیررسمی تعلیم کے مراکز اور دار الاقامہ میں بدل دیں اور ان میں قیام کرنے والے بچوں کو اجازت دیں کہ تعلیم کے اوقات میں وہ منظور شدہ اسکول مدرسے اور کالج میں پڑھا کریں۔