ہندوستان کی نئی تعلیمی پالیسی اور دینی مدارس

کسی جمہوری معاشرے کی تعمیروترقی اوراس کے استحکام میںتعلیم اورنصاب تعلیم کی کیا اہمیت ہے یا ہندوستان جیسے جغرافیائی،نسلی اور ثقافتی رنگارنگی کے حامل وسیع وعریض کثیرالمذاہب و مختلف اللسان ملک میںیہ کتنانازک اور حساس موضوع ہے،کسی ذی شعورشخص سے مخفی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے قومی رہنماؤ ں نے ہندوستان کو ایک ایسا آئین دیا جس میں حکومت کے نظام کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم کو بھی سیکولراورریشنل( مبنی بر عقل و منطق )رکھنے کا التزام ہےاور بنیادی حقوق کی دفعات {۲۱(الف) اور۳۰(۱){میں جہاں سب کے لیے یکساں تعلیم اور یکساں معیار و مواقع کی ضمانت دی گئی وہیں اقلیتوںکوان کے مذہب، زبان اور پسندکی تعلیم کاحق دیاگیا۔ آئین کے رہنما اصولوں میں یہ صراحت موجود ہے کہ ہندوستان ایک سوشلسٹ سیکولر جمہوری فلاحی ریاست ہے جس کاکوئی مذہب نہیںاوراس کے ہرباشندے کو سماجی ،معاشی اور سیاسی انصاف کے ساتھ ساتھ بولنے ، سوچنے اوراپنی سوچ کا اظہارکرنے کی آزادی، عقائد اور عبادت کی آزادی اور مساوات عزت و مواقع کی ضمانت حاصل ہے۔یہ آئین اس کی اجازت نہیںدیتاکہ کسی مذہب کے ماننے والوں یاان کے عقائداور طریقہ عبادت کو کسی اور پرتھوپاجائے یاکسی بھی صورت میں کسی کو کسی پر ترجیح دی جائے۔آئین ہند کی اس روح کے تحفظ اورفروغ کے لیے ہی ریاستوں کی تشکیل لسانی و ثقافتی بنیادوں پرکی گئی اور تعلیم کو مرکزکے بجائے ریاستوں کے فرائض و اختیارات کی فہرست میں رکھاگیااوربلاشبہ وحدت میں کثرت کے اسی فلسفہ میں اس ملک و قوم کی جان اور اسی کے فرو غ میں اس کا مستقبل ہے۔
۲۰۰۲ء میں آئین کی دفعہ ۲۱میں ایک شق(الف) جوڑی گئی جس کی رو سےتعلیم ہندوستان کے ۶سے ۱۴ سال عمر کے ہربچے کا بنیادی حق ہے۔اس کو مزید مؤکدو مشخص کرنے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کی غرض سے حق تعلیم (بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم) ایکٹ ۲۰۰۹ لایا گیا جو یکم اپریل ۲۰۱۰ء سےپورے ملک میں نافذہے۔اب کسی بچے کو کسی بھی صورت میں مروجہ مسلمہ معیاری تعلیم(یونیورسل ایلیمنٹری ایجوکیشن) سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ قانون کی رو سے ہر بچے کومروجہ مسلمہ معیاری تعلیم مہیا کرانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔اگر اس عمر کاکوئی بچہ درسگاہ سے باہر ہے یا اس کو ایسی تعلیم نہیں دی جارہی ہے جو حق تعلیم ایکٹ کے التزامات کے مطابق ہے تو اس میںذمہ دار سرکاری حکام ، بچوں کےوالدین وسرپرست اور اس عمل میں شریک دوسرے افراد پرقانونی کارروائی کانظم ہے۔ ہندوستان ایسا کوئی پہلا ملک نہیں ہے، دنیا کا ۱۳۵؍واں ملک ہے جہاں تعلیم کو ہربچے کا بنیادی حق بنایا گیا ہے۔نئے عالمی نظام میںاب ہندوستان جیسے ملک کے لیے آسان بھی نہیں ہے کہ وہ بچوں کی صحت اور تعلیم میں سنجیدگی سے کام نہ لے۔
حق تعلیم ایکٹ بنیادی تعلیم کا کم ازکم معیار بتاتا ہے،حکومت کو معیار متعین کرنے اور معیار کی نگرانی کرنےکی ذمہ داری دیتاہے ،غیرمنظور شدہ اسکول مدرسے چلانے سے روکتاہے اور بچوں کے داخلے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا ان سےفیس اور عطیات وغیرہ وصول کرنے کو غیرقانونی قرار دیتا ہے۔یہ قانون حکومت اور مقامی انتظامیہ کو بچوں کے گھر کے پڑوس میں اسکول مدرسہ مہیا کرانےکا پابند کرتا ہے۔پڑوس کا یہ دائرہ عام حالات میںپرائمری درجات کے لیے ایک کلومیٹر اور اپرپرائمری(۶تا۸) درجات کے لیے تین کلومیٹر ہے۔یہ قانون ہر علاقہ میں پابندی کے ساتھ سروے کرانے اور ایسے بچوں کی نشاندہی کرنے کی ذمہ داری عاید کرتا ہے جو تعلیم لینے کے اہل ہیں لیکن ان کومعقول تعلیم نہیں مل رہی ہے۔ اس ایکٹ کی دفعہ ۷(۶) نصاب تعلیم کا ایک قومی لائحہ عمل(این سی ایف) بنانے کی ذمہ داری عاید کرتی ہے اور حکومت ہند نے این سی ای آرٹی(قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت) کو اس مقصد کے لیے مجازادارہ مقرر کیا ہے۔بچوں کو اسکول مدرسے میں داخل کرانا ، ان کو حق تعلیم سے محروم نہ رکھنا اور ان کی بنیادی تعلیم کی تکمیل کرانا ، اس کی نگرانی کرنا اور ریکارڈ رکھنا (ایکٹ کی دفعہ۹) جس طرح حکومت و انتظامیہ کے فرائض میں شامل ہیںاسی طرح ان کودرسگاہ میں داخل کرانا اور حق تعلیم سےمحروم نہ رکھنا ان کے والدین کی ذمہ داری بھی ہے۔ایکٹ کی دفعہ ۱۰ خلاف ورزی پر والدین کے خلاف تعزیراتی کارروائی کرنے کا اختیار بھی دیتی ہے۔یہ قانون (دفعہ ۲۹) بنیادی اسکول مدرسوںمیں نصاب اور امتحانات کو لازمی بناتا ہے اور تعلیمی ادارے کو درجات ۵اور ۸ میں امتحان لے کر اسناد جاری کرنے کا پابند بھی کرتا ہے۔ایکٹ کی دفعہ ۳۰کی رو سے بنیادی تعلیم کی تکمیل کے بغیر بورڈکے امتحانات دلانا بھی غیرقانونی ہے۔ایکٹ کی دفعہ ۳۶ مجازحکام کو خلاف ورزی کے ارتکاب پر قانونی کارروائی کرنے کا اختیار دیتی ہےجبکہ ریاستی اور قومی حقوق اطفال کمیشن (الف)گھر کے پڑوس میں اسکول مدرسے،(ب)ان میںبچوں کی رسائی،(ج)داخلہ ،(د) تعلیمی وسائل کی فراہمی،(ہ) کلاس روم کا معقول انتظام اور(و) اسکول انتظامیہ کمیٹی جیسے امور کی نگرانی کا مجازوذمہ دارہے(دفعہ ۳۱ )۔آرٹی ای فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق ابھی تک ملک کے اسکولوں کی ۱۰فیصد سے بھی کم تعداد حق تعلیم ایکٹ کے معیاراور شرائط کو پورے کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی کو اس قانون سے کوئی استثنا حاصل ہے کیونکہ بنیادی حقوق کے تعلق سے یہ مسلمہ اصول ہے کہ اس سے کسی بھی صورت میں کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا، یہاں تک کہ آئین و قانون کسی کو خود اپنے کسی بنیادی حق سے دست بردار ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح ملک کے دینی مدارس کا جائزہ بھی اسی قانون کی روشنی میں لیا جانا چاہیےاور اسی کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کا وجود کتنا قانونی اور کتنا غیر قانونی ہے۔ حق تعلیم ایکٹ کے نفاذ کے بعد بعض علمائے دین اور ملی تنظیموں نے اس وقت کے مرکزی وزیر انسانی وسائل جناب کپل سبل سے ایک سرکاری حکمنامہ جاری کرایا تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں رائج روایتی درسگاہیں مثلاً پاٹھ شالا ، مدرسہ، گوروکل وغیرہ بھی تعلیمی ادارے تسلیم کیے جاتے ہیں اور ان میں پڑھ رہے بچوں کو اسکول سے باہر نہیں سمجھاجائےگا، نئی قومی تعلیمی پالیسی میں بھی ان روایتی اور غیر رسمی درسگاہوں سے تعلیم کے فروغ میں کام لینے کی بات کہی گئی ہےلیکن یہ نوٹیفکیشن کسی بھی تعلیمی ادارے کو حق تعلیم ایکٹ کے التزامات سے استثنا نہیں دیتاجیسا کہ دینی حلقوں میں مشتہر کیا گیا کیونکہ کسی بھی حکومت یا اتھارٹی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کے بنیادی حق میں کوئی مداخلت، تخفیف یا سمجھوتہ کرے۔ اسی طرح آئین کی دفعہ ۲۱ ؍اور دفعہ ۳۰؍ ایک دوسرے کی معاون و متکمل ہے نہ کہ متباین و متناقض۔اقلیتوں کے اپنی پسند کی تعلیم لینے اور اپنا تعلیمی ادارہ چلانے کے حقوق کی آڑ میں کوئی کسی کو بنیادی تعلیم کے حق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔
ملک کی نئی قومی تعلیمی پالیسی بچوں کی لازمی بنیادی تعلیم کے لیے عمرکی حدمیں توسیع (۳سے ۱۸سال) کرنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہےجو ایکٹ میں ترمیم لاکر کسی بھی دن کی جاسکتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس قانون کی زد میں ملک کے وہ سارے کے سارےتعلیمی ادارے آتے ہیں جو کسی قانون اور محکمہ کے تحت ریاست کے تسلیم شدہ تعلیمی ادارے نہیں ہیں یا جومنظورشدہ نصاب تعلیم اور معیار کی پابندی نہیں کرتے یا جنھوں نے کسی مجاز محکمہ یا بورڈ سے منظوری نہیں لی ہےلیکن ان میں اس عمر کے بچے رکھے گئے ہیں۔
نئی تعلیمی پالیسی دستاویز کا خلاصہ: نئی قومی تعلیمی پالیسی کاتعارف 14نکات پر مشتمل ہے جن میں کہا گیا ہے کہ تعلیم انسان کی صلاحیتوں کے مکمل حصول، ایک اہل اور منصفانہ معاشرہ کے فروغ اور قومی ترقی کو آگے بڑھانے کی بنیاد ہے۔آئندہ عشرے میں ہندوستان میں دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی ہوگی اور نوجوانوں کو اعلیٰ معیاری تعلیم دینے کی ہماری صلاحیت ہی ملک کے مستقبل کی روپ ریکھا طے کرےگی۔اس نیک مقصد کے حصول کے لیے جن اصولوں کو اپنانے پر زور دیا گیا ہےاس کے بنیادی نکات ہیں(۱) تعلیم و تربیت کی ہرسطح پر سب کی رسائی (Univesal Access) ، (۲)ابتدائی لڑکپن کی دیکھ ریکھ اور تعلیم (Early Childhood Care & Education)،(۳)اساسی پڑھائی لکھائی اور ہندسہ آموزی( Foundational Literacy & Numeracy) (۴)سکول کے نصاب اور درس و تدریس میں اصلاحات (۵) کثیر لسانیت(آٹھویں تک مادری زبان میں تعلیم اورپھردیگر چار زبانیں سکھانے کا انتظام)۔ (۶)امتحانات کے نظام میں تبدیلی۔اب درجات ۳، ۸، ۱۰؍ اور ۱۲کے امتحانات لیے جائیںگے اور یہ امتحانات طالب علم کی مجموعی استعداد پر مبنی ہوںگے اور اس کے لیے ایک قومی اسسمنٹ سنٹر-پرکھ (PRAKH-permomence Assessment and Analysis of Knowledge for Holistic-Development)قائم کیا جائےگا۔ (۷) یکساں اور جامع تعلیم (۸) اساتذہ کی لیاقت پر مبنی تقرری اور ترقی(۹) معیار بندی اور اکریڈیشن کا نیا نظام اور (۱۰) تعلیم کے بجٹ میں اضافہ( جس کو کم ازکم ملک کی مجموعی پیداوار کا 6%فیصدکرنے پر زور دیا گیا ہے)۔اسی طرح اعلی تعلیم میں(۱)متناسب تعلیمی مکانات وعمارات یعنی ضروری آلات سے مزین کشادہ عمارتیں اور احاطے(۱۵برسوں میں کالجوں کے الحاق کا نظام ختم کیا جاےگا ۔ یاتوان کو گرانٹید آٹونومی دی جائےگی یا پھر وہ یونیورسٹی کی مستقل اکائیاں ہوںگے) ، (۲) باصلاحیت ،پرعزم اور اہل اساتذہ(۳) نگرانی کے نظام کی ازسرنو تشکیل (۴) مانیٹرنگ مشن کا قیام (۵) طلبہ کی مالی امداد کے نظام میں تبدیلی (۶) ہندوستانی زبانوں کے فروغ (ہرعلاقہ کے بچوں کو ملک کے دوسرے علاقے؍صوبے کی کم ازکم ایک زبان کی تعلیم)اور(۷) پروفیشنل ایجوکیشن پر زور دیا گیا ہے۔
اس پالیسی کے اہداف کے طورپر یہ نکات سامنے آتے ہیں(۱)بچوں کی ابتدائی دیکھ ریکھ سے اعلیٰ ثانوی درجات تک (۳تا۱۸سال کی عمرتک) ملک کے ہر بچے کو مفت یکساں معیاری تعلیم دینا۔( اس کےلیے حقوق تعلیم ایکٹ ۲۰۰۹ء میں عمر کی حد میں توسیع کی جائےگی اوراس ہدف کو ۲۰۳۰ء تک پورا کرنے کانشانہ طے کیا گیا ہے۔ (۲) ۲۰۲۵ تک نیشنل مشن کے تحت ہر شخص کو خواندہ بنانا (۳)۲۰۳۰تک پری اسکول سے سکنڈری تک صدفی صد داخلہ کو یقینی بنانا۔(۴) اسکول سے باہر رہ گئے دو کروڑ بچوں کو واپس اسکول لانا(۵) امتحانات میں اصلاحات متعارف کرانے کے لیے ۲۰۲۳تک اساتذہ کو اس کے لیےتیار کرنا(۶) ۲۰۳۰تک جامع اور مساوی تعلیمی نظام کا حصول (۷) بورڈ کے امتحانات میں کور کنسپٹ اینڈ اپلی کیشن آف نالج (علوم کےبنیادی تصورات اور ان کا عملی انطباق )کی جانچ کے نظام کا نفاذ(۸) ہر بچے کا اسکول سے کسی ہنر کے ساتھ نکلنے کانظم (۹) اور پبلک پرائیویٹ ہر تعلیمی ادارے میں یکساں معیار کا نفاذ۔
دینی مدارس اور خدشات و امکانات: حق تعلیم ایکٹ اور نئی قومی تعلیمی پالیسی (۲۰۲۰)کے اہداف کی روشنی میں دینی مدارس کے تعلیمی نظام، ان کے وسائل، نصاب تعلیم اور درس و تدریس کے معیار کا جائزہ لیں تو ایک طرف اگر جابجا امید کی کرنیں نظرآتی ہیںتو دوسری طرف دور دور تک مایوسی کی تاریکیاں گھیر لیتی ہیں۔ ہندوستان میںدینی مدراس کی صحیح تعداد کا کوئی معتبرجائزہ ابھی تک کسی کے پاس نہیں ہے۔۲۰۱۹ء میں مرکزی وزارت اقلیتی امور کےپیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان مدرسوں کی تعداد۲۴۰۱۰ہے جن میں سے ۴۸۷۸غیرمنظورشدہ مدارس ہیں۔اس میںکہا گیا ہے کہ یہ مدرسےیوپی، بہار، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، بنگال اور آسام میں زیادہ تعداد میں ہیں جبکہ غیرسرکاری دعووں کے مطابق یہ تعداد کم وبیش ایک لاکھ ہوتی ہےاورہرمدرسے میں اوسطاً سوبچے بھی زیرتعلیم مان لیں تو ان کی مجموعی تعدادایک کڑور ہوگی جبکہ ان میں ایسے مدارس بھی شامل ہیں جن میں بچوں کی تعدادپانچ سو سے سے پانچ ہزار تک تک ہوتی ہے۔اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ملک کی ایک ایسی بیس کروڑ آبادی میں جہاں شرح خواندگی ابھی تک صرف ۶۵ فیصد کے آس پاس ہے ،یہ تعداد کتنی بڑی ہے۔ ان میں تین طرح کے مدارس ہیں۔ایک وہ جو کسی مجازمحکمے یا بورڈ سے باضابطہ تسلیم شدہ ہیں اور کسی حکومت کی مالی امداد بھی ان کو حاصل ہے۔دوسرے وہ ہیں جومنظوری تو رکھتے ہیں لیکن ان کو کسی حکومت کی کوئی مالی امداد حاصل نہیں ہے۔ان دونوں طرح کے مدرسوں کی تعداد بہار میں ۳۵۰۰کے قریب ، اترپردیش میں ۲۵۰۰، مغربی بنگال میں تقریباً ۵۰۰ اور آسام میں ۸۰۰ہے۔ملک کی کوئی چھ اور ریاستوں میں بھی مدرسوں کے بورڈ ہیںاور ان کے مدرسوں کی تعداد بھی دوڈھائی ہزار کے قریب ہوگی۔ان سب کے معیار میں تفاوت ہے، بہار مدرسہ بورڈ کا نصاب ریاست اور مرکز کےاسکولوں اور درس نظامی کے مضامین کو محیط ہے، مجازمحکموں سے تسلیم شدہ ہےاوراس کی اسناد کوریاست ہی نہیں ، مرکزکا سینٹرل بورڈ آف اسکول ایجوکیشن( سی بی ایس ای) بھی مساوی تسلیم کرتاہے۔مغربی بنگال مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے نصاب اور اسناد کوبھی ریاست میں مساوی درجہ حاصل ہے، یوپی میں اب مدرسہ بورڈ کے نصاب کو مساوی کیا جارہا ہے جبکہ ملک کے تعلیمی نقشے پر کیرل ایک ایسا جزیرہ ہےجہاں سی بی ایس اور این سی ای آرٹی کےمعیارکے دینی مدارس کے تین بورڈ ہیں(۱) سمستھ کیرل اسلام متھا ودیابھیاسا، (۲)سمستھ کیرل سنی ودیا بھیاسا اور(۳) کیرل اسلام متھا ودیا بھیاسا ؛اور یہ کسی سرکاری مالی امداد کے بغیرچلایا جانے والاریاست کے مسلمانوں کا خود مختارو خود مکتفی نظام تعلیم ہے ۔ ان کے مدرسوں کی تعداد ۱۲۵۰۰کے قریب ہےجن میںپرائمری سے بارہویں جماعت تک کے مدرسے شامل ہیں۔اسی طرح حیدرآباد میں جامعہ نظامیہ اور اس کی شاخیں ہیں ۔ان سب کی مجموعی تعداد۳۰؍ہزارکے قریب ہوتی ہے۔یہ وہ مدرسے ہیں جن کو قانوناً تعلیمی اداروں کا درجہ حاصل ہے۔سرکاری اسکولوں کی طرح ان میں بعض بڑے اعلی معیارکے اور بعض بڑے ناقص ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں مدرسوں کا سخت سے سخت ناقد ومخالف بھی ان کو غیر قانونی نہیں کہہ سکتا۔اب بچتے ہیں تیسری قسم کے مدرسے جو آزادیا درس نظامی کے مدرسے کہلاتے ہیں۔ جن کی تعداد یقیناً ان سےکم نہ ہوگی، بعض دعووں میں ان کی تعداد دوگنی سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اس کا کوئی معتبر تخمینہ کسی کے پاس نہیں ہے۔دیوبند کے رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ میں شامل مدارس کی کل تعداد ۳۰۳۴ ؍بتائی جاتی ہےجن کا تعلق اترپردیش ، بہار، اڑیسہ، دہلی، ہریانہ ، پنجاب، ہماچل، راجستھان، مدھیہ پردیش، آندھراپردیش، کرناٹک، تمل ناڈو، کیرالہ اور گجرات سے ہے۔ دیوبندی مشرب کےان مدارس کی تعداد بھی اس سے کم نہ ہوگی جو اس تنظیم میں شامل نہیں ہیں۔ندوہ اور اس کی شاخیں،عمرآبادکا مشہور مدرسہ عربیہ ، اعظم گڑھ (یوپی)کامدرسۃالفلاح اور مدرسۃ الاصلاح اور ان دونوں کی شاخیں ،جامعہ الھدایہ جےپور اور اس طرح کےبہت سے دوسرے بڑے مدرسے یقیناً اس میں شامل نہیں ہیں۔اسی طرح بریلوی، اہل حدیث اورشیعہ مدارس ہیں جن کی تعدادکا کوئی جزوی تخمینہ بھی ابھی تک ہمارے سامنے نہیں ہےلیکن اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنےہوںگے۔ دیوبنداور ندوہ جیسے بڑے بڑے مدارس تیسری قسم کے اسی زمرے میں آتے ہیں ، جن کی تاریخی اور علمی حیثیت تو مسلم ہے لیکن ان کی تعلیم اور اسناد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ مدارس کسی تسلیم شدہ نصاب، درس و تدریس اور امتحانات کے ضوابط کے پابند نہیں ہیں۔ان میں سے بیشتر اپنے طلبہ کودرمیان میں کوئی سند نہیں دیتے، ایک ہی بار فراغت کے بعد سند جاری کرتے ہیں یا اس کے بعد تخصص اور تکمیل کا کورس کرنے والوں کو اس منشا کی اسناد دیتے ہیں۔ ملک میں ایسے مدارس کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو بورڈ سے منظور ہیں، حکومت کے خزانے سے مدرسین کی تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن وہ نہ تو اس کو ظاہر کرتے ہیں نہ اپنی درسگاہوں میں بورڈ کا نصاب چلاتے ہیں اور نہ بورڈ کے امتحانات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، صرف خانہ پری کے لیے خواہش مند امیدواروں کے امتحانات کے فارم بھرواتے ہیںاور بورڈ کی جاری کردہ اسناد ان کو موصول کرادیتے ہیں ۔گویا یہ ایک اوپن اسکولنگ ایجنسی ہیں۔ان کا بھی سارا زور درس نظامی پر ہوتا ہے اور وہ ہرسال درس نظامی کے فارغین کی دستار بندی کا جلسہ کرتے یا اسناد جاری کرتے ہیںکیونکہ سماج میں اسی سے ان کی ساکھ بڑھتی ہے اور کاغذ کے اسی ٹکرے کوہمارے دینی حلقوں میں مقدس مانا جاتا ہے جس کی کہیں کوئی قانونی حیثیت نہیں تسلیم کی جاتی۔ ہاں !جب سے یونیورسٹیوں کو عربی، فارسی، دینیات وغیرہ مضامین میں داخلہ لینے والے طلبہ ملنے بہت کم ہوگئے ہیں، ان مدارس کے فارغین کو ان مضامین کے بی اے میں داخلہ دیا جانے لگا ہے حالانکہ ایسے فارغین مدارس کو بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کرلینے کے بعد دسویں کی اسناد کی کمی قدم قدم پریشان کرتی ہےاور وہ پچھلے دسیوں سال سے دیوبند اور ندوہ جیسے مدارس سے اس کا مطالبہ کررہے ہیںکہ یہ کم ازکم دسویں اور بارہویں کی الگ الگ اسناد جاری کرنے کا نظم کریں لیکن کون سنتا ہے فغان درویش۔ وہ ابھی تک اس پر غور کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں، چہ جائے کہ ضروری شرائط و معیار پورے کرکےخود کو تعلیمی ادارے کے طور پر تسلیم کروالیتے۔ وہ اس کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کا مقصد روزگار یا دنیاوی مناصب کا حصول نہیں ہے، صرف دین کی تعلیم دینا مقصود ہے تو پھر وہ یہ زحمت کیوں کریںجبکہ ملک کا آئین و قانون کہتا ہے کہ پانچویں، آٹھویں اور دسویں کاامتحان لینا اور اسناد جاری کرنا ہرتعلیمی ادارے کا فرض اور بچوں کا بنیادی حق ہے۔ان مدرسوںسے مختلف مواقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ(نئی دہلی)، مولانا مظہرالحق یونیورسٹی(پٹنہ)، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یوجی سی )، مڈیکل کونسل آف انڈیا(ایم سی آئی)اورحال ہی میںبہار پبلک سروس کمیشن نے خطوط لکھ کراس منشا کی گزارش کی لیکن کسی کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگی حتی کہ ان مدارس کی اسناد کے ناموں میں بھی یکسانیت نہیں ہے۔ندوہ کی عالمیت کوعربی فارسی کی بارہویں مانا جاتا ہےجبکہ دیوبندکے فاضل کو یہ درجہ دیا جاتا ہےکیونکہ دارالعلوم عالمیت کی سند جاری نہیں کرتا۔ اسی طرح مختلف ریاستوں کے مدرسہ بورڈ کی اسناد میں بھی ناموں کا تفاوت عام لوگوں اور سرکاری اداروں کو مشکل میںڈال دیتا ہے کہ وہ مدرسے کی کس سند کو کس درجے میں رکھیں۔ طبیہ کالجوں میں مدارس کے فارغین کے لیے پری طب میں داخلے کا نظم چلا آتا ہے، اس میں بارہویں کے مساوی اسناد (عالیہ کے مولوی، نظامیہ کی فضیلت اورجدیدنظامیہ یعنی ندوہ وغیرہ کی عالمیت)پر داخلہ دیا جایا کرتا تھا لیکن اب ایک عرصہ سےیہ ممکن نہیں ہے۔ مڈیکل کونسل آف انڈیا(MCI) نے اس کے لیے فاضل کی سند لازمی کردی کیونکہ کونسل یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ بورڈ کامولوی بارہویں کے مساوی ہے، ندوہ ، فلاح ، اصلاح ،مغربی بنگال مدرسہ بورڈاور کئی دوسرے مدرسوں کاعالم یا دیوبند اور اس قبیل کےمدرسوںکا فاضل؟۔جن مدرسوں میں فاضل کی سندبارہویں کے بعد تین سال کے عالم (گرجویشن)اور پھردو سال کےفاضل (پی جی) تکمیل کے بعد دی جاتی ہے ، ان کے فارغین کے ساتھ ان بےضابطہ مدرسوں کے باعث یہ کتنی بڑی زیادتی ہے، وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو نصاب اور سال بہ سال درجہ بہ درجہ تعلیم کی اہمیت کا کچھ احساس ہے۔

آخری بات
ہندوستان کے دینی مدارس دنیا کا ایک ایساسب سے بڑا غیرسرکاری نظام(این جی او ؍نیٹ ورک) ہیں جوعام لوگوںکے تعاون سے عام لوگوں کے لیےچلایا جاتا ہےاور اس کے منتظمین بھی عام لوگ ہی ہوتے ہیں۔اس کے منتظمین بھی امروارؤسانہیں ہوتے، ان اکثریت غریب علما کی ہے۔یہ سماج کےنادار بچوں کی فری تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی کفالت بھی کرتا ہے ۔اگر یہ مدارس نہ ہوں تو ملت کےلاکھوں بچے ناخواندہ رہ جائیں اورافلاس وتنگ دستی کے جہنم میں جینے کےتباہ کن چکر(Vicious Sycle) سے وہ اور ان کی نسلیں کبھی نہ نکل سکیں۔ یہ دنیا کا واحدادارہ ہے جو مفلس و ناداربچوں کوسماج کی سب سے پچھلی صف سے اٹھا کر پہلی صف میں بلکہ قیادت و امامت کے مقام پر پہنچا دیتا ہے مگرآج اس ملک کےبہت کم لوگوں کے دلوں میںاس کی قدر وقیمت کا احساس ہے۔ستم تو یہ ہے کہ ان مدارس کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذ پر سنگین خطرات درپیش ہیں جن سے ان کی حفاظت نہ کی گئی تو ملک وملت کو دین اور دنیادونوںکے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑےگا۔
حق تعلیم ایکٹ اورنئی قومی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں ملک کےان مدارس کے سامنےاب کوئی چارہ ہے تو یہ ہے کہ ہم اپنی درسگاہوں میں (۱) دینی علوم کے ساتھ مروجہ مسلمہ معیار اور تسلیم شدہ نصاب کے مساوی تعلیم کا نظم کریں (۲)جو مدارس منظورشدہ نہیں ہیں، ان کو حق تعلیم ایکٹ کی صراحت کے بموجب معیارو شرایط پورے کرکے ریاست کے مجاز محکمہ سے تعلیمی ادارے کے طور پر منظور کرائیں اور (۳) پانچویں، آٹھویں، دسویں اور بارہویں کے امتحانات کرائیں اور اسناد جاری کریں۔جولوگ اوپن اسکولنگ یا کسی اورطریقہ سے مدارس کے بچوں کو دسویں پاس کرانے کی بات کررہے ہیںوہ بھی خطا پر ہیں، حق تعلیم ایکٹ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ دس سال کے نصاب کی سال بہ سال درجہ بہ درجہ تکمیل کرائے بغیر ایسا کریں۔ آپ اس کام میں سرکار سے امداد لیں یا نہ لیں ، آپ کو بچوں کی مروجہ مسلمہ بنیادی تعلیم(Universal Elementry Education) کا انتظام کرنا ہی ہے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مدرسوں کو بند کردیں اور سرکار کو ان بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرنے دیں۔ ایک تیسری صورت بھی ہے کہ ان مدارس کو غیررسمی تعلیم کے مراکز اور دارالاقامہ میں بدل دیں اور ان میں قیام کرنے والے بچوں کو اجازت دیں کہ تعلیم کے اوقات میں وہ منظور شدہ اسکول مدرسے اور کالج میں پڑھا کریں۔
( فقہ اکیڈمی(انڈیا) نئی دہلی کے دو روزہ سیمینار’’بدلتے حالات کے تقاضے اور ہندوستانی مسلمان‘‘ بتاریخ ۲۹۔۳۰؍جون ۲۰۲۲ء میں پیش کردہ مقالہ کے اقتباسات پر مبنی)

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔ آسماں تہہ خاک(سوانحی خاکے)، فکرفردا (کالموں کا انتخاب)، تلخ نوائی(منتخب اداریے)، میرے حصے کی دلّی اور قصہ چھٹے درویش کا (یادداشت اور خاکے) اور مبادیات صحافت و ادارت(درسی کتاب) ان کی مقبول و معروف کتابیں ہیں۔ احمد جاوید تاریخ و سوانح میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ صحافت میں پروفیشنلزم کے محرکین میں شامل ہیں اورصحافیوں کی تربیت میں اپنے گرانقدر تعاون کے لیے جانے جاتے ہیں۔ صحافت اور ادب میں نمایاں خدمات کے لیے ان کو باوقار سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے انعامات و اعزازات سے بھی سرفراز کیا ہے اور ان کے کام نے غیرمعمولی پذیرائی حاصل کی ہیں۔

More From Author

ایک موت کی انگنت چیخیں  اور اس کا ان سنا سچ

اے آئی: اردو کمیونٹی کے لیے ایک تاریخی تناظر اور فوری ضرورت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *